تلاش شدہ نتائج

محفوظ شدہ الفاظ

"اِبْتِلا" کے متعقلہ نتائج

آزْمائِش

وہ فعل جو تجربہ كرنے كے لیے ہو، امتحان، جانچ، پركھ

آزْمائِش میں ٹَھہَرنا

امتحان میں پورا اترنا

آزْمائِشی

آزمائش سے منسوب، امتحانی، تجرباتی، امتحانی، عملی

آزْمائِشِ عِشْق

آزْمائِش میں آنا

جانچا جانا، پركھا جانا، تجربے یا امتحان كے بعد معلوم ہونا

آزْمائِشی وَرْژَن

تجرباتی یا امتحانی شکل یا حالت

ذِہْنی آزْمائِش

ایسا امتحان جو آدمی کی ذہانت کا اندازہ کرنے کے لیے لیا جائے

کَڑی آزْمائِش

سخت امتحان ، سخت مُشکل مرحلہ ، مرحلہ ، آزمائش کی گھڑی.

قابِلِ آزْمائِش

پَیمائِش و آزْمائِش

نا قابِلِ آزْمائِش

اردو، انگلش اور ہندی میں اِبْتِلا کے معانیدیکھیے

اِبْتِلا

ibtilaaइब्तिला

اصل: عربی

وزن : 212

اِبْتِلا کے اردو معانی

اسم، مؤنث، واحد

  • بلا، مصیبت، افتاد، پھنسنا، آفت، بدبختی
  • آزمائش، امتحان، جانچ

قریب ترین ہم صوتی الفاظ

اِبْتِلاع

نگل جانا ، گلے سے اُتارنا .

image-upload

وضاحتی تصویر

کیا آپ کے پاس کوئی تصویر ہے جو اس لفظ کی بہتر ترجمانی کر سکے؟

اگر ہاں، تو اسے یہاں اپلوڈ کیجیے تاکہ اس لفظ کے معنی مزید اجاگر ہو سکیں۔ مزید جانیے

شعر

English meaning of ibtilaa

इब्तिला के हिंदी अर्थ

संज्ञा, स्त्रीलिंग, एकवचन

اِبْتِلا کے مترادفات

اِبْتِلا سے متعلق دلچسپ معلومات

ابتلا پلیٹس) (Platts نے اسے مذکر بتایا ہے۔ صاحب ’’نوراللغات‘‘ نے اسے مونث لکھ کر مسرور لکھنوی کا مندرجہ ذیل شعر نقل کیا ہے ؎ ہیں ایک نہ اک بلا کے پابند جاتی نہیں ابتلا ہماری یہ خیال ظاہر کیا گیا ہے کہ عربی کے جو مصادر باب افتعال سے ہیں اور ہمارے یہاں بطور اسم برتے جاتے ہیں، وہ سب مونث ہیں۔یہ ضروری نہیں۔ مثلاً حسب ذیل الفاظ باب افتعال سے ہیں لیکن مذکر ہیں: اتحاد؛اتہام؛اجتماع؛اختصاص؛اختیار؛ اعتبار؛ وغیرہ۔ باب افتعال کے بعض مصدرایسے ہیں جو مذکر مونث دونوں طرح بولے جاتے ہیں،یا پہلے مختلف فیہ تھے، لیکن اب رجحان ایک ہی طرف ہے۔ مثلاً ’’اتباع ‘‘اب عام طور پر مذکر ہے، پہلے مونث بھی تھا۔ ’’اردو لغت، تاریخی اصول پر‘‘ میں ’’تقویت الایمان ‘‘ کا فقرہ بطور سند درج ہے: رسول مقبول کی اتباع و اطاعت۔ اس کے برخلاف جلیل مانک پوری نے اپنے رسالے ’’تذکیر و تانیث‘‘ میں اسے مذکر لکھ کر سعادت خاں ناصر کا شعر نقل کیا ہے ؎ کر کے عصیاں آنکھ کو پر نم کیا اتباع سنت آدم کیا ’’اختراع ‘‘آج کل تقریباً ہمیشہ مونث سنا جاتا ہے لیکن منیر شکوہ آبادی نے مذکر باندھا ہے ؎ چلن سینہ شگافی کا بتایا سوگواروں کو لحد نے اختراع اول کیا چاک گریباں کا منیر شکوہ آبادی ہی نہیں، کوئی سو برس پہلے تک سبھی اس لفظ کو مذکر بولتے تھے۔ آج بھی کوئی مذکر بولے تو غلط نہ ہو گا، لیکن مونث بولنامرجح ہے۔ مہدی افادی نے اسے مونث ہی فرض کرتے ہوئے Masterpieceکا ترجمہ ’’اختراع فائقہ‘‘ کیا تھا۔ ’فائقہ‘‘ میں تاے تانیث ہے۔’’اختراع فائقہ‘‘ اب نہیں بولتے۔ ان معنی میں اب ’’شاہکار‘‘ رائج ہے۔ ’’اعتنا‘‘کومظفر علی اسیر نے مونث باندھا ہے ؎ نہ اٹھا نہ حضرت کی تعظیم کی نہ کچھ اعتنا کی نہ تسلیم کی آج کل یہ لفظ تقریباً ہمیشہ مذکر بولا جاتا ہے۔ ’’اردو لغت، تاریخی اصول پر‘‘ میں علامہ سید سلیمان ندوی کا یہ فقرہ بطور سند درج ہیـ: ادب اور فن بلاغت کے ساتھ زیادہ اعتنا کیا گیا۔ ’’ التماس‘‘شروع ہی سے مختلف فیہ رہا ہے۔ آج کل عام طور پر مونث ہے۔ میر نے مذکر باندھا ہے اور میر انیس نے مونث،میر (۱) اور میرا نیس (۲) ؎ صبح تک شمع سر کو دھنتی رہی کیا پتنگے نے التماس کیا کی سر جھکا کے حیدر صفدر نے التماس روشن ہے حال آپ پہ یا شاہ حق شناس ’’التماس‘‘ کواحسان دانش نے مونث بتایا ہے اوربعض لوگوں کو میر کے شعر پر حیرت ہے کہ اس میں ’’التماس ‘‘مذکر ہے۔ ظاہر ہے کہ میر کے زمانے کی ہر تذکیریاتانیث آج کے لئے سند نہیں بن سکتی۔ لیکن آج بھی بہت سے لوگ ’’التماس ‘‘ کو مذکر بولتے ہیں۔ چونکہ محاورۂ جمہور دونوں طرح ہے لہٰذا شکایت کی کوئی گنجائش نہیں۔ جلیل مانک پوری نے اپنے رسالے ’’تذکیر و تانیث‘‘ میں لکھا ہے کہ دلی والے ’’التماس‘‘ کو مذکر بولتے ہیں، لیکن میرا خیال ہے اس میں لکھنؤ دلی کی تخصیص نہیں۔ کم سے کم اب تو نہیں ہے۔ ’’تذکیر و تانیث‘‘ (تاریخ اشاعت ۶۱۹۱) کے زمانے میں رہی ہو تو رہی ہو۔ ابجد دیکھئے، ’’حروف ابجد‘‘۔ ابھر کر سامنے آنا بعض لوگ ’’نمایاں ہونا، توجہ انگیز ہونا، توجہ کا مرکز بننا‘‘کی جگہ ’’ابھر کر سامنے آنا‘‘لکھنے لگے ہیں،یہ نہیں دیکھتے کہ اس فقرے میں تکرار ناروا ہے۔ جو چیز ابھرے گی وہ سامنے ہی تو آئے گی۔ ’’ابھرنا‘‘ اور ’’سامنے آنا‘‘ یہاں ایک ہی معنی دے رہے ہیں۔ پھر، ابھرنے کے بعد ’’سامنے آنا‘‘ کا کچھ مطلب یوں بھی نہیں کہ ابھر کر’’ پیچھے آنا‘‘ غیر ممکن ہے۔اسی طرح، کوئی چیز دب کر توسامنے آئے گی نہیں، لہٰذا’’ابھر کر‘‘ سامنے آنا کہنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ یا تو ’’ابھر نا‘‘ کہیے،یا ’’سامنے آنا‘‘ کہیے۔ قبیح اور نا مناسب:گذشتہ چند برسوں میں جو شعرا ابھر کر سامنے آئے ہیں۔۔۔ فصیح اور مناسب:۔۔۔سامنے آئے ہیں/ابھرے ہیں/نمایاں ہوئے ہیں۔۔۔ قبیح اور نا مناسب:رپورٹ کو پڑھنے سے جو نکتہ ابھر کر سامنے آتا ہے۔۔۔ فصیح اور مناسب:۔۔۔نمایاں ہوتا ہے/نمایاں طور پر نظر میں آتا ہے/خاص طور سے متوجہ کرتا ہے۔۔۔ قبیح اور نا مناسب:اس وقت ہمارے معاشرے میں تشدد کا رجحان ابھر کر سامنے آرہا ہے۔ فصیح اور مناسب:۔۔۔نمایاں ہو رہا ہے/ابھر رہا ہے/واضح طور پر ابھر رہا ہے/بہت زیادہ نمایاں ہو رہا ہے۔

ماخذ: لغات روز مرہ    
مصنف: شمس الرحمن فاروقی

مزید دیکھیے

حوالہ جات: ریختہ ڈکشنری کی ترتیب میں مستعمل مصادر اور مراجع کی فہرست دیکھیں ۔

رائے زنی کیجیے (اِبْتِلا)

نام

ای-میل

تبصرہ

اِبْتِلا

تصویر اپلوڈ کیجیے مزید جانیے

نام

ای-میل

ڈسپلے نام

تصویر منسلک کیجیے

تصویر منتخب کیجیے
(format .png, .jpg, .jpeg & max size 4MB and upto 4 images)
بولیے

Delete 44 saved words?

کیا آپ واقعی ان اندراجات کو حذف کر رہے ہیں؟ انہیں واپس لانا ناممکن ہوگا۔

Want to show word meaning

Do you really want to Show these meaning? This process cannot be undone

Recent Words