تلاش شدہ نتائج

محفوظ شدہ الفاظ

"اَلِفْ" کے متعقلہ نتائج

اَلِفْ

عربی، فارسی اور اردو کے حروف تہجی کا پہلا حرف

اردو، انگلش اور ہندی میں اَلِفْ کے معانیدیکھیے

اَلِفْ

alifअलिफ़

اصل: عربی

وزن : 12

موضوعات: ریاضی

اشتقاق: ألِفَ

اَلِفْ کے اردو معانی

مذکر

  • عربی، فارسی اور اردو کے حروف تہجی کا پہلا حرف
  • اللہ کا مخفف جو عموماً خطوں، نسخوں یا دستاویزوں کے شروع میں لکھا جاتا ہے(بیشتر اس طرح : ا )
  • سیدھی کھڑی لکیر یا خط وغیرہ
  • چھڑی وغیرہ کی مار کا نشان، بٹ
  • عنوانات یا اوراق وغیرہ کی ترتیب کا نمبر
  • مرد مجرد
  • (ریاضی وغیرہ) مفروضہ شخص شے مقدار یا عدد وغیرہ
  • سیدھا، راست

شعر

English meaning of alif

Masculine

  • first letter corresponding to "a" in english

अलिफ़ के हिंदी अर्थ

पुल्लिंग

  • सीधी खड़ी लकीर या ख़त वग़ैरा
  • (रियाज़ी वग़ैरा) मफ़रूज़ा शख़्स शैय मिक़दार या अदद वग़ैरा
  • उनवानात या औराक़ वग़ैरा की तर्तीब का नंबर १
  • मर्द मुजर्रिद
  • अरबी, फ़ारसी और उर्दू के हरूफ़-ए-तहज्जी का पहला हर्फ़
  • अल्लाह का मुख़फ़्फ़फ़ जो उमूमन ख़तों ए नुस्ख़ों या दस्तावेज़ों के शुरू में लिखा जाता है(बेशतर इस तरह : ए )
  • उर्दू वर्णमाला का पहला अक्षर जो अ, इ और उ का काम देता है।
  • उर्दू वर्णमाला का पहला अक्षर, जो अ, इ और उ का काम देता है, चिह्न ।
  • छड़ी वग़ैरा की मार का निशान, बट
  • सीधा, रास्त

اَلِفْ سے متعلق دلچسپ معلومات

الف الف کی تعریف عربی میں یہ ہے کہ یہ متحرک کبھی نہیں آتا، اور یا تو یہ ممدودہ ہوگا یا مقصورہ۔ ممدودہ سے مراد وہ الف ہے جسے کھینچ کر پڑھیں اور جو اصولاً دو الف کے برابر سمجھا جاتا ہے۔ مقصورہ وہ الف ہے جو کھینچ کر نہیں پڑھا جاتا اور جسے اصولاً ایک الف کے برابر سمجھا جاتاہے۔ جیسے قرآن پاک کی آیت ووجدک ضآلّاً فہدیٰ میں ضآ کا الف ممدودہ ہے اور فہدیٰ کا الف مقصورہ۔ اردو کے لئے یہ تعریفیں زیادہ کارآمد نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عربی میں چونکہ الف کو متحرک نہیں قرار دیتے، اس لئے عربی لفظوں میں جہاں جہاں الف متحرک آتا ہے وہاں اسے ہمزہ فرض کرتے ہیں۔ اور جہاں الف کو ہمزہ سے بدلنا ممکن ہوتا ہے، وہاں الف کی جگہ ہمزہ ہی لکھا اور پڑھا جاتا ہے۔ چونکہ عربی میں بے شمار الفاظ الف سے شروع ہوتے ہیں، لہٰذا عربی والے ان تمام الفوں کو ہمزہ کہتے ہیں۔ مثلاً الیٰ الآخر میں پہلے الف کو ہمزہ کہیں گے، ’’یٰ‘‘ کو الف مقصورہ کہیں گے، اور’’ آ‘‘ کو الف ممدودہ کہیں گے۔ اگر ہمزہ نہ ہوتا تو مندرجہ ذیل طرح کے تمام الفاظ الف کے ساتھ لکھے جاتے: آرائش [آرااِش]، پیمائش [پیمااِش]، تزئین [تزاین]، جائیے [جااِیے] رئیس [رَایس]، کائی [کاای]، کوئی [کوای]، مطمئن[مطمََ اِن]، مئی [مَ ای]وغیرہ۔ عربی کے زور میں بعض لوگ اردو میں بھی وہاں ہمزہ لگا دیتے ہیں جہاں اب اردو نے اسے ترک کردیا ہے لیکن عربی میں وہ موجود ہے: تأ مل [تَ اَمّل] اردو میں صرف تامل، مؤ رخ [مُ ارّخ] اردو میں صرف مورخ، اور اس طرح کے تمام الفاظ، متأثر [مُ تَ اَثّر] اردو میں صرف متاثر۔ ہمزہ سے غیر ضروری لگاؤ ہی اس بات کی وجہ ہے کہ بعض عربی داں لوگ اردو میں لفظ کے شروع میں آنے والے الف پر بھی ہمزہ لگا دیتے ہیں، یا لگانا چاہتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ سب غلط ہے اور عربی کے الف / ہمزہ کو اردو پر لادنے کی احمقانہ کوشش کا نتیجہ ہے۔ اردو کے لئے ہر وہ الف ممدودہ ہے جو کھینچ کر پڑھا جائے، چاہے وہ لفظ کے شروع میں ہو یا بیچ میں یا آخر میں۔ اور الف مقصورہ وہ الف ہے جو عربی کے بعض الفاظ، مثلاً ’’حسنیٰ، عقبیٰ، عیسیٰ، لیلیٰ‘‘ وغیرہ میں ہے۔ جو الف کھینچ کر نہ پڑھا جائے وہ محض الف ہے، نہ مقصورہ نہ ممدودہ۔ ’’اردو لغت، تاریخی اصول پر‘‘، اور بعض دوسرے لغات میں لفظ کے شروع میں آنے والے غیر ممدودہ الف کو ’’مقصورہ‘‘ کہا گیا ہے، لیکن اس کی کوئی وجہ نہیں معلوم ہوتی۔ عربی کے لحاظ سے ایسا الف ہمزہ ہے، اور اردو کے لحاظ سے محض الف، نہ مقصورہ نہ ممدودہ۔ یہ بات بھی ملحوظ رہے کہ عربی کے الف مقصورہ کو سیدھے الف میں بدل لینے کا رجحان اردو فارسی میں ایک عرصے تک رہا، لیکن اب بہت کم ہوگیا ہے بلکہ اردو میں اب رجحان اس کے خلاف ہی ہے، کیونکہ ’’دعوا [دعویٰ]، اعلا [اعلیٰ]، استعفا [استعفیٰ]‘‘ وغیرہ مقبول نہیں ہوسکے ہیں۔ فی الحال الف مقصورہ والے حسب ذیل الفاظ عموماً سیدھے الف یا چھوٹی ہ سے لکھے جاتے ہیں: بلوہ [بلویٰ]، تولا [تولیٰ]، حمقا [حمقیٰ] حیات [حیواۃ]، دنیا [دنییٰ]، سوا [سویٰ]، شکوہ [شکویٰ]، صحارا [صحاریٰ]، عاشورہ [عاشوریٰ]، ماسوا [ماسویٰ]، ماوا [ماویٰ]، مربہ [مربیٰ]، ملجا [ملجیٰ]، منتہا [منتہیٰ]، مولا [مولیٰ]، ہوا [ہویٰ، بمعنی ’’ہوس‘‘] وغیرہ۔ الف مقصورہ اگر لفظ کے آخرمیں ہواور اس لفظ پر یائے نسبتی لگانی ہو تو الف مقصورہ کو واؤ میں بدل دیتے ہیں۔ مثلاً: اخریٰ/اخروی دنییٰ/دنیوی، عیسیٰ/عیسوی، کسریٰ/کسروی، مصطفیٰ/مصطفوی، موسیٰ/ موسوی، وغیرہ۔ ملحوظ رہے کہ ’’مطبع مجتبائی‘‘ اور ’’مطبع مصطفائی‘‘ کی صورت دیگر ہے۔ چونکہ ’’مجتبوی، مصطفوی‘‘ اردو میں خاص پیغمبرؑ کی ذات سے منسوب اشیا کے لئے مختص ہوگئے ہیں۔ لہٰذا ان مالکان مطبع نے اپنے ادارے کو ’’مجتبائی /مصطفائی‘‘ لکھ کر پیغمبرؐ کی نسبت سے التباس کو زائل کردیا، یعنی یہ واضح کر دیا کہ اس ادارے کے بارے میں ایسا کوئی دعویٰ نہیں ہے کہ اسے ذات نبوی سے کوئی نسبت ہے۔ یہ احتیاط کا تقاضا تھا، اور خوب ادا ہوا۔ یہ بھی ملحوظ رہے کہ ’’عیسائی‘‘ اور ’’موسائی‘‘ مخصوص معنوں میں ہیں، یعنی ’’دین عیسیٰؑ /دین موسیٰؑ کا ماننے والا‘‘۔ اگر اور کوئی نسبت ظاہر کرنی ہو تو حسب معمول ’’عیسوی/موسوی‘‘ کہیں گے۔ ’’موسائی‘‘ اب بہت شا ذ ہے۔’’نور اللغات‘‘ میں علی اوسط رشک کا یہ شعر سند میں مرقوم ہے ؎ موسائیوں کوطور کے جلوے سے کم نہیں جو دلگی ہے اس بت روشن ضمیر کی غالب نے بھی اپنے ایک خط میں ’’موسائی‘‘ لکھا ہے۔’’تولائی‘‘ بھی مستثنیات میں ہے۔ چونکہ اصل لفظ کا آخری حرف الف مقصورہ ہے، اس لئے اس پر یائے نسبتی لگاتے وقت الف مقصورہ کو واؤ میں بدل جانا چاہئے تھا۔ لیکن ایسا نہیں ہوا، شاید اس لئے کہ اس لفظ کو ’’تبرا‘‘ کے مقابل قیاس کرلیا گیا۔ ’’تبرا‘‘ میں الف مقصورہ نہیں، اس کا آخری حرف ہمزہ ہے اور اصل عربی میں یہ ’’تَبَرُّء‘‘ ہے۔ اس طرح کے دیگرلفظوں کی طرح یہاں بھی اردو والوں نے ہمزہ حذف کر دیا ہے، اور پھر اس کے قیاس پر’’تولا/تولائی‘‘ کرلیا۔ ناسخ ؎ خدایا مجھ کو اس سے ہے تولا اور اس کے دشمنوں سے ہے تبرا غالب ؎ ان کو غالب یہ سال اچھا ہے جو ائمہ کے ہیں تولائی لفظ کے آخر میں الف مقصورہ والے ناموں (اعشیٰ، عیسیٰ، لیلیٰ، مرتضیٰ، مصطفیٰ، موسیٰ، وغیرہ) میں الف مقصورہ کو کھڑے الف سے لکھنا اردو یا فارسی میں بالکل ہی قبول نہیں کیا جاسکا ہے۔ ’’صغریٰ‘‘ کو کہیں کہیں ’’صغرا‘‘ لکھا ہوا دیکھا گیا ہے، مثلاً صغرا ہمایوں مرزا اپنا نام الف ہی سے لکھتی تھیں۔ لیکن میری رائے میں اس املا کا ترک انسب ہے۔ ترکیب کی صورت میں البتہ کبھی الف مقصورہ کو چھوٹی ی سے بدل لیتے ہیں، یا الف سے بدل لیتے ہیں۔ دونوں صورتیں صحیح ہیں، لیکن جو رائج ہو وہ انسب ہے: تقوی جوانی، تقوائے جوانی، دعویٰ تمکیں، دعوائے تمکیں، عیسی دوراں، لیلیٰ شب، لیلائے شب، موسیٰ عمراں، وغیرہ۔ آخر میں الف مقصورہ رکھنے والے ناموں اور الفاظ کو فارسی والے کبھی کبھی یوں برتتے تھے گویا آخری حرف، الف مقصورہ نہیں، چھوٹی ی ہے۔ غالب نے اسی وجہ سے لکھا ہے ؎ دل گذر گاہ خیال مے و ساغر ہی سہی گر نفس جادۂ سر منزل تقویٰ نہ ہوا مر گیا صدمۂ یک جنبش لب سے غالب نا توانی سے حریف دم عیسی نہ ہوا یہاں ’’تقویٰ، عیسیٰ‘‘ مع یائے تحتانی، یعنی بروزن ’’خالی، سردی‘‘ وغیرہ پڑھے جائیں گے۔ جیسا کہ خیال میں ہوگا، اس غزل کا مطلع ہے ؎ دہر میں نقش وفا وجہ تسلی نہ ہوا ہے یہ وہ لفظ کہ شرمندۂ معنی نہ ہوا ’’افعی‘‘ اور ’’معنی‘‘ دو لفظ ایسے ہیں جن میں الف مقصورہ چھوٹی ی کی طرح پڑھا جاتا ہے، یعنی اصلاً یہ الفاظ ’’افعیٰ‘‘ اور ’’معنیٰ‘‘ ہیں۔ دہلی میں’’معنیٰ‘‘ بروزن ’’پیدا‘‘ اب بھی کبھی کبھی سنائی دے جاتا ہے، لیکن اب اس لفظ کو شاید ہی کوئی ’’پیدا، ایسا، ہوا‘‘ وغیرہ کا قافیہ کرتا ہو۔ اب ’’معنی‘‘ کا قافیہ ہمیشہ ہی چھوٹی ی والے الفاظ کے ساتھ ہوتا ہے۔ واضح رہے کہ ’’اللہ، رحمٰن، زکواۃ، صلواۃ‘‘ جیسے لفظوں میں تیسرا حرف الف ہی ہے جسے قاعدۂ کتابت کی رو سے دوسرے یا تیسرے حرف کے اوپر، یا واؤ کی شکل میں لکھا جاتا ہے۔ یہ الف مقصورہ نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ’’رحمان، زکات، صلات‘‘ وغیرہ بھی لکھنا درست مانا جاتا ہے۔ ’’اللہ‘‘ کے بارے میں البتہ یہ مانا ہوا اصول ہے کہ اردو میں اسے ’’اللٰہ‘‘ یا ’’الاہ‘‘ لکھنا صحیح نہیں، عربی میں کچھ بھی ہو۔ دیکھئے، ’’ہمزہ‘‘ ’’ہمزہ کا غیر ضروری استعمال‘‘۔

ماخذ: لغات روز مرہ    
مصنف: شمس الرحمن فاروقی

مزید دیکھیے

حوالہ جات: ریختہ ڈکشنری کی ترتیب میں مستعمل مصادر اور مراجع کی فہرست دیکھیں ۔

رائے زنی کیجیے (اَلِفْ)

نام

ای-میل

تبصرہ

اَلِفْ

تصویر اپلوڈ کیجیے مزید جانیے

نام

ای-میل

ڈسپلے نام

تصویر منسلک کیجیے

تصویر منتخب کیجیے
(format .png, .jpg, .jpeg & max size 4MB and upto 4 images)
بولیے

Delete 44 saved words?

کیا آپ واقعی ان اندراجات کو حذف کر رہے ہیں؟ انہیں واپس لانا ناممکن ہوگا۔

Want to show word meaning

Do you really want to Show these meaning? This process cannot be undone

Recent Words